RADD E BATIL

KYA NABI SALLALLAHU ALAIHI WASALLAM KA KHOON PAAK HAI ? TAHQEEQI JAYEZA

بسم الله الرحمن الرحیم

کافی دنوں پهلے عرفان برکتی بریلوی نے ایک پوسٹ کی جس میں نبی صلی الله علیه وسلم کے خون کے پاک هونے کی دلیل تهی اور ثابت کرنا چاها که آپ کا خون پاک هے تو انشاءالله میں نهایت اختصار جتنی بهی روایت میرے علم میں هیں بیان کرتا هوں. اور ابن حجر رحمه الله نے بهی التلخیص الحبیر میں ان تمام دلائل کا ذکر کیا هے.

1. حضرت ابن عباس رضی الله عنه سے مروی هے که قریش کے ایک غلام نے رسول الله صلی الله علیه وسلم کو سینگی لگائی. وه رسول الله صلی الله علیه وسلم کا خون مبارک لے کر گیا تو دیوار کے پیهپے جاکر اسے پی لیا. رسول الله صلی الله علیه وسلم نے اسکے منھ کی طرف دیکها اور فرمایا تم پر افسوس هے! تم نے خون سے کیا کیا؟ اس غلام نے کها میں نے دیوار کے پیهپے اسے غائب کردیا هے. رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا کهاں غائب کیا هے؟ تو اسنے کها میں نے مناسب نه سمجها که اسے زمین پر گراؤں, میں نے اسے اپنے پیٹ میں انڈیل لیا هے. رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا جاؤ تم نے اپنے آپ کو آگ سے بچالیا.

تخریج الحدیث:

حافظ ابن حجر نے هی ذکر کیا هے که اسے امام ابن حبان رحمه الله نے (کتاب المجروحین ج ۳ ص ۵۹.) میں نقل کیا هے اسکا راوی نافع ابوهرمز حضرت عطا رحمه الله کے واسطے سے ایک منگهڑت نسخه روایت کرتا هے اس میں ایک یه روایت بهی هے. امام یحیی بن معین نے اسے کذاب کها هے.

(التلخیص الحبیر ج ۱ ص ۳۱.)

گویا نافع ابوهرمز کذاب کا بنایا هوا یه قصه هے. امام دارقطنی اور امام ابوحاتم نے اسے متروک, امام نسائی نے لیس بثقه کها هے.

(لسان المیزان ج ۶ ص ۱۴۶, الموضوعات ج ۳ ص ۲۱۵.)

علامه ابن الجوزی نے اسے لایصح

(العلل المتناهیه ج ۱ ص ۱۸۱.)

اور علامه ابن الملقن نے ضعیف جدا کها هے.

(البدر المنیر ج ۱ ص ۴۷۴.)

۲. حافظ ابن حجر نے اس سلسلے میں دوسری حدیث سالم بن ابی هندا الحجام رضی الله عنه کی ذکر کی هے جسے ابونعیم نے (معرفه الصحابه ج ۳ ص ۱۳۴.) میں ذکر کیا هے. سالم رضی الله عنه فرماتے هیں که میں نے رسول الله صلی الله علیه وسلم کو سینگی لگائی اور سینگی میں جمع شده خون پی لیا اور رسول الله صلی الله علیه وسلم سے عرض کیا که میں نے وه خون پی لیا هے. آپ صلی الله علیه وسلم نے فرمایا تم پر افسوس هے تمهیں معلوم نهیں که خون حرام هے آئنده ایسا نه کرنا.

(التلخیص الحبیر ج ۱ ص ۳۰.)

تخریج الحدیث:

ابن حجر نے اسکے بارے میں فرمایا هے که اسکی سند میں ابو الجحاف هے اور اس میں کلام هے. ابوالجحاف کا نام داود بن ابی عوف هے اور وه مختلف فیه هے حافظ ابن حجر نے تقریب میں کها هے:

“صدوق شیعی ربما اخطا من السادسه.”

(تقریب ص ۹۴.)

“وه صدوق هے شیعه هے بسا اوقات غلطی کرتا هے اور حپهٹے طبقے کا هے.”

اسلیے اس حدیث کو حسن درجے کی تسلیم کیا جائے تو بهی اس میں انقطاع کی علت پائی جاتی هے کیونکه خود ابن حجر نے تقریب کے مقدمے میں لکها هے که “طبقه سادسه کے راویوں کی کسی صحابی سے ملاقات ثابت نهیں.” مزید یه کهے موسی بن عبدالرحمن کے حالات تتبع کے باوجود نهیں ملے سکے, اسلئے یه روایت اپنے ضعف کے باوجود مسئله زیر بحث کے حق میں استدلال کے قابل نهیں اور نه یه روایت خون کے پینے کی تحسین اور خون کے طاهر هونے کی دلیل هے بلکه “ویحک اما علمت ان الدم حرام, لا تعد.”

کے الفاظ اسکے حرام هونے اور آینده اسے پینے کی ممانعت پر صریح دلیل هیں.

۳.. حافظ ابن حجر نے تیسری حدیث بحواله بزار, ابن خیثمه اور شعب الایمان للبیهقی حضرت سفینه رضی الله عنه سے نقل کی هے که رسول الله صلی الله علیه وسلم نے سینگی لگوائی پهر فرمایا که جانوروں, پرندوں اور لوگوں سے بچانے کیلئے خون کو دفن کردو. میں رسول الله صلی الله علیه وسلم سے دور گیا اور اسے پی لیا. میں نے خون کے پینے کا رسول الله صلی الله علیه وسلم سے ذکر کیا تو رسول الله صلی الله علیه وسلم هنس پڑے.

تخریج الحدیث:

ابن حجر نے اس روایت کو ذکر کیا اور سکوت اختیار کیا کوئی حکم نهیں لگایا, حالانکه اسکا دارومدار ابراهیم بن عمر بن سفینه پر هے. ابن الجوزی نے العلل المتناهیه ج ۱ ص ۱۸۰ میں اسے ذکر کیا هے اور اس پر ابن حبان کا کلام نقل کیا هے.

“لا یحل الاحتجاج بابراهیم بن عمر.”

ابر هیم سے استدلال درست نهیں.

بلکه ان کا پورا کلام یه هے:

“یخالف الثقات فی الروایات, یروی عن ابیه مالا یتابع علیه من روایه الثقات فلا یحل الاحتجاج بخبر بحال.”

(کتاب المجروحین ج ۱ ص ۱۱.)

ابن حبان نے اسکے ترجمے میں یه روایت ذکر کی هے. ابن الملقن نے اسے ضعیف قرار دیا هے.

(البدالمنیر ج ۱ ص ۴۸۰.)

دارقطنی نے بهی اسے الضعفاء والمتروکین میں ذکر کیا هے.

(الضعفاء والمتروکین ۱۰۱.)

تعجب هے که ابن حجر نے “التلخیص” مں اس روایت پر سکوت اختیار کیا هے مگر “تقریب ص ۲۲” میں اسی راوی کو مستور قرار دیا هے. اسکا لقب بریه هے خود ابن حجر نے “لحم حباری” کی  روایت, جو اسی کے واسطے سے هے, کو ضعیف کها هے.

(التلخیص الحبیر ج ۱ ص ۱۵۴.)

علامه بوصیری نے بهی کها هے که بعض راوی مجهول هونے کی وجه سے اسکی سند مجهول هے.

(اتحاف الخیرۃ ج ۷ ص ۲۹.)

بلکه امام البخاری نے فرمایا اسکی سند مجهول هے. مزید تفصیل کیلئے علامه البانی کی “سلسله الحدیث الضعیفه ۱۰۷۴.” دیکهئے. اسلئے علامه هیثمی نے طبرانی کے حوالے سے نقل کرکے جو اسکے راویوں کو ثقه کها هے. قطعا درست نهیں.

(مجمع الزوائد ج ۸ ص ۲۷۰.)

وللتفصیل موضع آخر.

۴. ابن حجر نے چوتهی حدیث حضرت عبدالله بن زبیر رضی الله عنه سے بحواله بزار, طبرانی حاکم اور بیهقی وغیره نقل کی هے. که رسول الله صلی الله علیه وسلم نے سینگی لگوائی, مجهے سینگی کا خون دیا اور فرمایا جاؤ اسے غائب کردو. میں گیا تو میں نے اسے پی لیا جب واپس آیا تو رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا تم نے کیا کیا هے؟ میں نے عرض کیا میں نے اسے غائب کردیا هے رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا شاید تم اسے پی لیا هے؟ میں نے عرض کیا جی هاں میں نے اسے پی لیا هے.

(التلخیص ج ۱ ص ۳۰.)

تخریج الحدیث:

ابن حجر نے فرمایا اسکی سند میں هنید بن قاسم هے جو “لا باس به” لیکن “مشهور بالعلم” نهیں هے.” ابن حبان نے کتاب الثقات ج ۵ ص ۵۱۵ میں اسے ذکر کیا هے اور ذهبی نے کها مجهے اسکی بارے میں جرح معلوم نهیں.

(السیر ج ۳ ص ۳۶۶.)

بوصیری اور علامه سیوطی نے اس روایت کو حسن کها هے.

(اتحاف الخیرۃ ج ۲ ص ۹۱, الخصائص الکبری ج ۳ ص ۲۷۰.)

مگر انکی یه تحسین محل نظر هے. ابن حبان کا ثقات میں ذکر کرنا اسکے ثقه هونے کی قابل اعتماد دلیل نهیں, خود ابن حجر نے “لسان المیزان ج ۱ ص ۱۴.” میں اسکی وضاحت کردی هے. یهی وجه هے که ابن ملقن نے کها هے. “لا یعلم له حال” اسکا حال معلوم نهیں.

(البدرالمنیر ج ۱ ص ۴۷۶.)

بلکه انهوں نے علامه ابن دقیق العید کی “الالمام ج ۳ ص ۳۸۵.” سے یه بهی نقل کیا هے که هنید بن قاسم کے علاوه اسکی سند میں کوئی اور نهیں جس کا حال محتاج بیان هو.” اسلئے وه مجهول الحال هے.

علامه هیثمی نے ایک جگه (ابن حبان کی متابعت میں) اسے ثقه کهه دیا هے.

(الزوائد ج ۸ ص ۸۷۰.)

اور جبکه دوسرے مقام پر اسے مجهول کها هے.

(مجمع ج ۱ ص ۲۸.)

امام بخاری نے “التاریخ الکبیر ج ۸ ص ۲۴۸.” اور امام ابن ابی حاتم نے “الجرح والتعدیل ج ۹ ص ۱۲۱.” میں اس کا ذکر کیا هے اور اس پر سکوت اختیار کیا هے اسلئے اس راوی کی توثیق ثابت نهیں بلکه مجهول الحال هے, لهذا یه روایت بهی ضعیف هے.

۵. ابن حجر نے ذکر کیا هے که یه حدیث (حضرت عبدالله بن زبیر رضی الله عنه کی بجائے) حضرت اسماء بنت ابی بکر الصدیق سے طبرانی اور دارقطنی میں هے مگر اس میں علی بن مجاهد ضعیف هے.

(التلخیص ج ۱ ص ۳۱.)

تحقیق وتخریج:

یه راوی ضعیف نهیں بلکه متروک هے جیسا که خود ابن حجر نے “التقریب ص ۲۴۸.” میں کها هے بلکه یه بهی کها که امام احمد کے شیوخ میں اس سے زیاده اور کوئی ضعیف نهیں هے.

مزید برآن اس کا استاد رباح النوبی مجهول هے, حافظ ذهبی نے کها

“لینه بعضهم ولا یدری من هو.”

(میزان الاعتدال ج ۲ ص ۳۸.)

“بعض نے اسے کمزور کها هے, حالانکه معلوم نهیں یه کون هے.”

یهی کپھ ابن حجر نے لسان المیزان ج ۲ ص ۴۴۳ میں کها هے.

۶. ابن حجر نے حپهٹی روایت حضرت عبدالله بن زبیر رضی الله عنه کی مذکوره بالا حدیث جزء الغطریف, طبرانی اور ابو نعیم کے حوالے سے حضرت سلمان فارسی سے بهی بیان کی هے اور اس پر کوئی نقد وتبصر نهیں کیا.

(التلخیص ج ۱ ص ۳۱.)

تحقیق وتخریج:

البته علامه علی متقی نے “کنز العمال ج ۱۳ ص ۴۶۹.” میں کها هے که اسکے راوی ثقه هیں مگر یه بات درست نهیں. کیسان مولی ابن الزبیر کا ترجمه نهیں مل سکا. اسکا شاگرد سعد ابو عاصم جو سعد بن زیاد هے امام ابو حاتم “الجرح والتعدیل ج ۴ ص ۱۳.” نے اسکے بارے میں کها هے

“یکتب حدیث ولیس بالمتین.”

(میزان ج ۲ ص ۱۲.)

تنها ابن حبان نے “الثقات ج ۶ ص ۳۷۸.” میں اس ذکر کیا هے.

(لسان المیزان ج ۳ ص ۱۶.)

۷. المستدرک للحام ج ۳ ص ۵۶۳ اور المعمجم الکبیر للطبرانی میں هے که غزوه احد میں رسول الله صلی الله علیه وسلم جب زخمی هوئے تو مالک بن سنان رضی الله عنه نے رسول الله صلی الله علیه وسلم کا خون چوس لیا آپ صلی الله علیه وسلم نے فرمایا جو چاهتا هے که ایسے شخص کو دیکهے جسکے خون میں میرا خون هے تو وه مالک بن سنان کو دیکھ لے.

یه روایت معجم الصحابه للبغوی ۲۰۸۵. اور ابو نعیم کی معرفه الصحابه میں منقول هے. امام حاکم نے اس پر سکوت اختیار کیا مگر ذهبی نے تلخیص المستدرک میں یه کهه کر اسکی کمزور واضح کردی هے که “اسناده مظلم” اسکی سند تاریک هے. کیونکه ام سعید بن مسعود اور ام عبدالرحمن بنت ابی سعید دونوں مجهول هیں, ان کا کهیں اتا پتا نهیں ملا. شیخ مقبل بن هادی رحمه الله بهی “رجال الحاکم فی المستدرک” میں انکے بارے میں خاموش هیں. ابن ملقن نے کها هے

“فیه مجاهیل لا اعرفهم بعد الکشف عنهم.”

(البدر المنیر ج ۱ ص ۴۸۱.)

اس میں کئی مجهول هیں, تلاش کے باوجود میں انهیں نهیں پهچانتا.”

اس روایت کی ایک اور سند “المعجم الاوسط للطبرانی ج ۱۰ ص ۴۰,۴۱.” اور ابونعیم کی “معرفه الصحابه ج ۵ ص ۲۴۵۶.” میں هے مگر اس میں مصعب بن اسقع کو تنها ابن حبان نے الثقات ج ۹ ص ۱۷۳ میں ذکر کیا هے.

جبکه امام بخاری اور ابن ابی حاتم نے اس سے سکوت کیا هے اهل علم بخوبی واقف هیں که تنها ابن حبان کی توثیق معتبر نهیں. اسکا استاد ربیح بن عبدالرحمن بر ابی سعید الخدری “مقبول” هے.

(تقریب ص ۱۰۰.)

ابن حبان نے الثقات میں ذکر کیا هے اور ابن عدی نے “ارجو انه لا باس به” کها هے جبکه امام بخاری نے منکر الحدیث, احمد نے رجل لیس بمعروف اور ابوزرعه نے “شیخ” کها هے.

(تهذیب ج ۳ ص ۲۳۸, میزان ج ۲ ص ۳۸.)

قارئین کرام رسول الله صلی الله علیه وسلم کا خون پینے والوں کے حوالے سے روایا آپ کے سامنے هیں. ان میں کوئی روایت بهی ایسی نهیں جو حسن یا صحیح هو. اگر ان تمام مجموعے سے اسکی اصل تسلیم بهی کر لیا جائے! تو اس سے یه لازم نهیں آتا که رسول الله صلی الله علیه وسلم کے تمام فضلات پاک هیں رسول الله صلی الله علیه وسلم کیا, عام انسان کا خون راجح قول کے مطابق انسان کی تکریم اور عظمت کی بنا پر حرام هے. اسکا حرام هونا نجس هونے کی وجه سے نهیں الا یه که وه سبیلین سے نکلے. امام بخاری نے ذکر کیا هے که حضرت حسن بصری نے فرمایا هے مسلمان همیشه سے اپنے زخموں میں نماز پڑهتے تهے. امام طاوس, محمد بن علی, عطاء اور اهل حجاز نے کها: خون نکلنے سے وضو کی ضرورت نهیں. ابن حجر نے ذکر کیا هے که حضرت ابوهریره ابن عمر, سعید بن جبیر, سعید بن مسیب رضی الله عنهم, فقهائے سبعه مدینه طیبه امام مالک اور امام شافعی وغیره کا یهی قول هے. حضرت عمر رضی الله عنه جب زخمی هوئے تو انکا خون بهه رها تها اور وه نماز پڑھ رهے تهے. حضرت جابر رضی الله عنه فرماتے هیں که غزوه ذات الرقاع میں صحابی کو تیر لگا, خون بهتا رها اور وه نماز پڑهتے رهے خون نجس هوتا تو اسکے نکلنے سے نه وضو رهتا نه هی نماز جائز هوتی.”

(تحفه الاحوذی ج ۲ ص ۹۰.)

اسلئے اگر رسول الله صلی الله علیه وسلم کا خون پینا ثابت هوجائے تو اس سے یه لازم نهیں آتا هے که پینے والے نے نجس سمجهنے کے باوجود اس پیا تها. اکثر روایات میں خون کو دفن کردینے کا حکم بهی اسی بات کا مشعر هے که آپ صلی الله علیه وسلم کا دم مبارک نجس نهیں تها. یه حکم بهی احتراما تها تاکه جانور اور پرندے اسے نه کهائیں.

ان تمام روایات کی صحت آپ لوگ معلوم کر چکے هیں, مگر “عرفان برکتی بریلوی صاحب اپنی پوسٹ میں کها که اس کی سند ضعیف هے تو عرض هے که یه فضیلت میں چل جاتی هے.”

مطلب عرفان برکتی بریلوی خود بهی مطمئن نهیں تها اس کے سند سے اسلئے اسکے آگے والا کلام نقل کر دیا. تو اسکا جواب عرض هے که جناب من! فضیلت میں بهی وه روایت چلتی هے جس میں ضعف شدید نهیں هو مگر یهاں تو ایسی کوئی بات نهیں بلکه مجهول کذاب راوی بهی موجود هیں لهذا یه روایت نه تو فضیلت میں بیان هو سکتی هیں اور نه ان سے استدلال کیا جاسکتا هے.

مگر عرفان برکتی بریلوی کو اگر علم تها کا اس روایت کی صحت صحیح نهیں تو جناب نهیں اس پر حکم کیونکه نه لگایا.!!

اس هی وجه سے عرفان برکتی امام مسلم کے کلام کا مصدک ٹهڑتا هے.

که ایسے لوگوں کو چاهے که وه اسکی صحت کا ذکر کر دے که یه روایت ضعیف هے جو بهی هے, جو ایسا نهیں کرتا اس کو جاهل کهنا بهتر هے. تفصیل دیکهئے.

مقدمه صحیح مسلم.

اب اسکے بعد کپھ لوگوں کے ذهن میں یه بات بهی آئے گی که, بلکه ایک بهائی نے سوال بهی کیا تها که پوسٹ کا عنوان کپھ اور هے جبکه اسکے نیچے حدیث کپھ اور هے ان میں تعلق کیسے ثابت هوتا هے تو ان کے جواب میں عرض هے امام بخاری نے یه روایت صحیح بخاری ج ۱ ص ۱۵۸ میں باب قول النبی صلی الله علیه وسلم “الدین الصحیه لله ولرسوله ولائمه لمسلمین وعامتهم.”

کے تحت ذکر کی هے جو که کتاب الایمان کی آخری روایت هے.

اور امام بخاری نے اس کتاب میں بدعتی اور گمراه فرقوں کا رد کیا هے اور آخر میں یه روایت بیان کی هے. تو اس کی شرح کرتے هیں

صاحب ایضاح البخاری کیا خوب هی کها هے که:

“امام همیں یه بتلا رهے هیں که هم نے ابواب سابقه میں مرجیه, خارجیه اور کهیں بعض اهل سنت پر تعریضات کی هیں لیکن هماری نیت میں اخلاف هے. خواه مخواه کی حپهیڑ حپهاڑ همارا مقصد نهیں اور نه همیں شهرت کی هوس هے بلکه یه ایک خیر خواهی کے جذبه سے هم نے کیا اور جهاں کوئی فرقه بهٹک گیا یا کسی انسان کی رائے همیں درست نظر نهیں آئی وهاں هم نے یه نیت ثواب صحیح بات وضاحت سے بیان کردی.”

(ایضاح البخاری ص ۴۲۸. مزید تفصیل صحیح بخاری کی شرح کی کتب میں دیکهی جاسکتی هے.)

اور یهاں میرا مقصد اس حدیث کو بیان کرنے کا بهی یهائی هے.

الله سوچنے سمجهنے کی توفیق دے. اور حق بیان کرنے اور کروانے کی الله توفیق دیتا رهے.

اور الله سے دعا هے که اگر کوئی غلطی هو گی هو تو الله هماری مغفرت کرے اور هم اس سے رجوع کرتے هیں جو بات قرآن حدیث سلف صالحین کے خلاف هے.

آمین یارب العالمین.

گنهگار کیلئے دعا کی اپیل.

MINJANIB==> HAFIZ UMAR SADIQ

Standard

Leave a comment